حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مدرسۂ علمیہ ثقلین قم کے طلباء کی جانب سے ایک فکری و علمی نشست کا انعقاد کیا گیا، جس کا مرکزی عنوان شہادتِ امام علی نقی علیہ السّلام تھا، جبکہ اس موقع پر SIR کے موضوع پر ایک تعارفی اور آگاہی نشست بھی منعقد کی گئی۔

مقررین نے امام علی نقی علیہ السلام کی سیرتِ طیبہ پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ امام علی نقیؑ کی حیاتِ مبارکہ امتِ مسلمہ کے لیے عظیم فکری اور روحانی سرمایہ ہے۔ آپؑ نے امت کو دو ایسے بے مثال تحفے عطا فرمائے جو آج بھی ہدایت اور معرفت کا سرچشمہ ہیں۔
خطیب مجلس نے مزید کہا کہ ان میں سے پہلا عظیم تحفہ زیارتِ جامعہ کبیرہ ہے، جو اہلِ بیت علیہم السلام کے فضائل، مناقب اور بلند مقام کو نہایت جامع انداز میں بیان کرتی ہے۔ جو شخص اہلِ بیتؑ کی حقیقی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس زیارت کو غور و فکر کے ساتھ پڑھے اور سمجھے۔ دوسرا عظیم تحفہ وہ زیارت ہے جو عیدِ غدیر کے دن پڑھی جاتی ہے، جو معرفتِ ولایت اور اہلِ بیت علیہم السلام سے قلبی وابستگی کو مضبوط بناتی ہے۔ مقرر نے کہا کہ ان دونوں زیارات کے ذریعے امام علی نقی علیہ السلام نے امت کو فکری و روحانی رہنمائی کا ایک دائمی نظام عطا فرمایا ہے۔
نشست میں مولانا علی خضر عمرانی نے SIR کے موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے واضح کیا کہ SIR کیا ہے، اس کا پس منظر اور حقیقت کیا ہے، اسے نافذ کرنے کے مقاصد کیا ہیں اور ہندوستان کی مختلف سیاسی جماعتیں، بالخصوص موجودہ حکومتی جماعت بی جے پی، اسے کس زاویے سے دیکھتی ہیں۔

انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ SIR کے ممکنہ عوامی اثرات کیا ہو سکتے ہیں، ملک کے موجودہ حالات کس رخ پر جا رہے ہیں، اور وہ افراد جو ان امور سے باخبر نہیں ہیں، ان پر یہ تبدیلیاں کس طرح اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
اپنی گفتگو کے اختتام پر مولانا علی خضر عمرانی صاحب نے اس امر پر زور دیا کہ موجودہ حالات میں ہندوستانی طلبہ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ ہمیں شعور، بصیرت اور حکمت کے ساتھ حالات کو سمجھنے، ان کا تجزیہ کرنے اور مثبت و تعمیری طرزِ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم ایک ذمہ دار فرد اور باشعور شہری کے طور پر اپنا کردار ادا کر سکیں۔

پروگرام کا اختتام دعائیہ کلمات پر ہوا، جبکہ سامعین نے اس فکری و علمی نشست کو نہایت مفید، بروقت اور بصیرت افروز قرار دیا۔









آپ کا تبصرہ